حیران کن ہے! سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ ہم (یعنی ہمارا جسم) ایک نظر نہ آنے والی روشنی خارج کرتا ہے، جو ہماری موت کے بعد ختم ہو جاتی ہے۔
ایک سائنسی تجربے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ زندہ جاندار، جیسے جانور اور پودے، زندگی کے دوران ایک مدھم روشنی خارج کرتے ہیں، جو موت کے بعد غائب ہو جاتی ہے۔
کینیڈا کی یونیورسٹی آف کیلگری اور نیشنل ریسرچ کونسل کے محققین نے چوہوں اور پودوں کے پتوں پر تجربات کیے۔ انہوں نے اس نہایت کمزور روشنی، جسے "الٹرا ویک فوٹون ایمیشن" (UPE) کہا جاتا ہے، کے واضح شواہد حاصل کیے، جو جاندار کے مرنے پر ختم ہو جاتی ہے۔
یہ روشنی انسانی آنکھ سے نظر نہیں آتی کیونکہ یہ بہت ہی مدھم ہوتی ہے اور حرارت یا دیگر ماحولیاتی روشنیوں سے چھپ جاتی ہے۔
تاہم، سائنسدانوں نے خاص کیمروں کا استعمال کیا جو انتہائی کمزور روشنی، یہاں تک کہ ایک ایک فوٹون کو بھی، محسوس کر سکتے ہیں۔ ان کی مدد سے انہوں نے زندہ چوہوں میں روشنی دیکھی، جو چوہے کے مرنے کے فوراً بعد نمایاں طور پر کم ہو گئی۔ انہوں نے درجہ حرارت کو قابو میں رکھا تاکہ حرارت کے اثرات سے نتائج متاثر نہ ہوں۔
ایسی ہی روشنی پودوں کے پتوں میں بھی دیکھی گئی۔ جب محققین نے پتوں کو نقصان پہنچایا یا دباؤ میں رکھا، تو ان حصوں سے زیادہ روشنی خارج ہوئی بنسبت صحت مند حصوں کے۔
اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ روشنی خلیوں میں ہونے والے کیمیائی ردعمل، خاص طور پر "ری ایکٹو آکسیجن اسپیشیز" (Reactive Oxygen Species) نامی مرکبات کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
یہ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ یہ مدھم روشنی طب یا زراعت میں ایک مفید آلہ بن سکتی ہے، جو بغیر کسی تکلیف دہ یا اندرونی جانچ کے، جانداروں یا فصلوں کی صحت یا دباؤ کا اندازہ لگانے میں مدد دے سکتی ہے۔
اگرچہ یہ خیال شروع میں عجیب یا روحانی لگ سکتا ہے، کیونکہ یہ “آورا” جیسی باتوں سے مشابہت رکھتا ہے، لیکن یہ مکمل طور پر خلیوں میں ہونے والے حقیقی جسمانی عمل پر مبنی ہے۔ مستقبل میں یہ روشنی زندہ جاندار کی صحت یا ذہنی دباؤ کا پتا چلانے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔